کبھی میں نے پل میں بھلا دیا
کبھی روشنی بن کے اندھیروں میں
سیدھی راہ سے مجھ کو بھٹکا دیا
ابھی دل کے پرانے داغ نہ دھل سکے
پھر چپکے سے اک نیا گھاؤ لگا دیا
میں موسیٰ نہیں، نہ ہی عیسی ہوں
ید بیضا کبھی، کبھی سولی پہ جھلا دیا
وہ سب وعدے فراموش کئے
وفاؤں کا کیا صلہ دیا
میں انجان یا معصوم ہوں ضیا
اک قطرے کی تمّنا میں
سمندر گلے لگا لیا
No comments:
Post a Comment