“The heart was made to be broken” - Oscar Wilde
Monday, December 28, 2009
Friday, December 18, 2009
Saturday, November 28, 2009
Friday, November 27, 2009
Thursday, November 19, 2009
جنگل کا دستور
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے، تو وہ حملہ نہیں کرتا
سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں، بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے
تو ندی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسی مان لیتی ہیں
ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں
تو مینا اپنےگھر کو بھول کر
کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے
سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے تو
سارا جنگل جاگ جاتا ہے
ندی میں باڑ آجائے، کوئی پل ٹوٹ جائے تو کسی لکڑی کے تختے پر
گلہری، سانپ، چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں
خداوندا، جلیل و معتبر، دانا و بینا، منصف و اکبر
ہمارے شہر میں اب
جنگلوں کا ہی کوئی دستور نافذ کر
Tuesday, November 03, 2009
Monday, September 14, 2009
Monday, September 07, 2009
Saturday, September 05, 2009
تاکید
اسے کہنا
اگر آے، تو ساتھ اپنے
کوئی جگنو، کوئی تارا بھی لے آے
کہ میرا دل مرے گھر کی طرح
تاریک رہتا ہے
Wednesday, September 02, 2009
Tuesday, September 01, 2009
Gulshan-i-Raz-i-Jadid (excerpt)
In this world things decay
And stay for a brief day.
To know what is
to have true bliss
And what gnosis is? This:
Our heart does not seek lies
It is divinely wise.
A fruitless grief
Is not our brief,
And pining after what is not
Is not our lot.
True passion,
yearning, zest,
A roaring quest—
Keep these alive:
On them your self will thrive.
The self can be immortalized
And union with God realized
Without losing your identity—
A lover’s unity.
A breath if it is burning bright
Can set a lamp alight.
There is a needle
that can mend a rent
In the cloak of the firmament.
Sunday, August 30, 2009
لفظ
"....لفظ انسان کے غلام ہوتے ہیں مگر بولنے سے پہلے
"بولنے کے بعد انسان اپنے لفظوں کا غلام بن جاتا ہے
Wednesday, August 26, 2009
Saturday, August 22, 2009
نئے شالے دوشالے
نئے شالے دوشالے دیکھ لینا
یہ جھومر اور جھالے دیکھ لینا
تحائف جب نرالے دیکھ لینا
پھر ان ہاتھوں کے چھالے دیکھ لینا
Thursday, August 13, 2009
Tuesday, August 04, 2009
Sunday, August 02, 2009
Sunday, July 26, 2009
Saturday, July 25, 2009
Friday, July 24, 2009
! ترس کھا
ترس کھا ایسی ملت پر جو توہمات سے پر اور عقیدے سے خالی ہو
ترس کھا ایسی ملت پر جو وہ زیبِ تن کرتی ہو جو اس نے نہیں بنا، وہ کھاتی ہو جو اس نے نہیں بویا، وہ شراب پیتی ہو جو کسی اور نے کشید کی
ترس کھا ایسی ملت پر جو غنڈے کو ہیرو سمجھےاور فاتح کو بھر بھر جھولی درازی عمر کی دعا دے
ترس کھا ایسی ملت پر جو نیند میں بہادر اور جاگتے میں بزدل ہو
ترس کھا ایسی ملت پر جس کی صدا سوائے جلوسِ جنازہ کبھی بلند نہ ہو، سوائے زیرِ شمشیر کبھی گردن نہ اٹھے
ترس کھا ایسی ملت ہر جس کا مدبر لومڑ اور فلسفی مداری ہو اور ہنر ان کا صرف لیپا پوتی اور نقالی ہو
ترس کھا ایسی ملت پر جو ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور ہر ٹکڑا خود کو ملت جانے۔۔۔۔۔۔۔
ترس کھا ایسی ملت پر جو وہ زیبِ تن کرتی ہو جو اس نے نہیں بنا، وہ کھاتی ہو جو اس نے نہیں بویا، وہ شراب پیتی ہو جو کسی اور نے کشید کی
ترس کھا ایسی ملت پر جو غنڈے کو ہیرو سمجھےاور فاتح کو بھر بھر جھولی درازی عمر کی دعا دے
ترس کھا ایسی ملت پر جو نیند میں بہادر اور جاگتے میں بزدل ہو
ترس کھا ایسی ملت پر جس کی صدا سوائے جلوسِ جنازہ کبھی بلند نہ ہو، سوائے زیرِ شمشیر کبھی گردن نہ اٹھے
ترس کھا ایسی ملت ہر جس کا مدبر لومڑ اور فلسفی مداری ہو اور ہنر ان کا صرف لیپا پوتی اور نقالی ہو
ترس کھا ایسی ملت پر جو نقارہ بجا کر نئے حاکم کا استقبال کرے اور آوازے کس کے رخصت کرے اور پھر نقارہ بجائے اگلے حاکم کے لیے
ترس کھا ایسی ملت پر جس کے دانشمند گزرتے وقت کے ساتھ بہرے ہوتے چلے جائیں، جس کے قوی اب تک گہوارے میں ہوں
ترس کھا ایسی ملت پر جس کے دانشمند گزرتے وقت کے ساتھ بہرے ہوتے چلے جائیں، جس کے قوی اب تک گہوارے میں ہوں
ترس کھا ایسی ملت پر جو ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور ہر ٹکڑا خود کو ملت جانے۔۔۔۔۔۔۔
Thursday, July 16, 2009
Saray Jahan Main Dhoom Humari Zaban Ki Hai! :)
اسی اثنا میں شاہدِ زریں لباب شب نے زلفِ مشکیں فام کھولی، بزمِ عالم میں آکر جلوہ گر ہوئی، اور زینت طرازِ دہر نے کہکشاں سے مانگ کر عروس چرخ کی سنواری۔
شام ہوتے ہی تمام بارہ دری میں روشنی ہوئی اور باغ میں قنادیلِ بلوریں لٹکائی گئیں، سروِ چراغاں اپنا فروغِ بہار دکھانے لگے۔ نہروں میں کنول روشن کر کے ڈال دیے گئے، بجرے پڑ گئے، جل ترنگ بجنے لگا۔۔۔ چادرِ آب منقش و رنگیں تھی، شاہدِ آب ہر ہفت زیور سے مزئین تھی۔ جہاں کہیں پانی گھومتا تھا، وہیں کنول بھی گرد گھومتے تھے۔ اس وقت کی بہار قابلِ دید تھی۔ گویا شعلہ رو لباس رنگا رنگ زیبِ جسم کیے گردش کھاتے تھے۔ کنارے کنارے کنیزانِ دُر در گوش، مرصع پوش، جل ترنگ کے ساتھ اشعارِ بہار انگیز گاتی تھیں۔
شام ہوتے ہی تمام بارہ دری میں روشنی ہوئی اور باغ میں قنادیلِ بلوریں لٹکائی گئیں، سروِ چراغاں اپنا فروغِ بہار دکھانے لگے۔ نہروں میں کنول روشن کر کے ڈال دیے گئے، بجرے پڑ گئے، جل ترنگ بجنے لگا۔۔۔ چادرِ آب منقش و رنگیں تھی، شاہدِ آب ہر ہفت زیور سے مزئین تھی۔ جہاں کہیں پانی گھومتا تھا، وہیں کنول بھی گرد گھومتے تھے۔ اس وقت کی بہار قابلِ دید تھی۔ گویا شعلہ رو لباس رنگا رنگ زیبِ جسم کیے گردش کھاتے تھے۔ کنارے کنارے کنیزانِ دُر در گوش، مرصع پوش، جل ترنگ کے ساتھ اشعارِ بہار انگیز گاتی تھیں۔
Saturday, July 04, 2009
Saturday, May 23, 2009
Thursday, May 07, 2009
Monday, May 04, 2009
Sunday, April 26, 2009
تو بچا بچا کے نہ رکھ
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے، نگاہِ آئینہ ساز میں
Saturday, April 18, 2009
Subscribe to:
Posts (Atom)