Sunday, May 29, 2011

بارہواں کھلاڑی

خوشگوار موسم میں
ان گنت تماشائی
اپنی اپنی ٹیموں کو
داد دینے آتے ہیں
اپنے اپنے پیاروں کا
حوصلہ بڑھاتے ہیں
میں الگ تھلگ سب سے
بارہویں کھلاڑی کو
ہوٹ کرتا رہتا ہوں
بارہواں کھلاڑی بھی
کیا عجب کھلاڑی ہے
کھیل ہوتا رہتا ہے
شور مچتا رہتا ہے
داد پڑتی رہتی ہے
اور وہ الگ سب سے
انتظار کرتا ہے
ایک ایسی ساعت کا
ایک ایسی لمحے کا
جس میں سانحہ ہو جائے
پھر وہ کھیلنے نکلے
تالیوں کے جھرمٹ میں
ایک جملہ خوش کن
ایک نعرہ تحسین
اس کے نام پر ہو جائے
سب کھلاڑیوں کے ساتھ
وہ بھی معتبر ہو جائے
پر یہ کم ہی ہوتا ہے
پھر بھی لوگ کہتے ہیں
کھیل سے کھلاڑی کا
عمر بھر کا رشتہ ہے
عمر بھر کا یہ رشتہ
چھوٹ بھی تو سکتا ہے
آخری وسل کے ساتھ
ڈوب جانے والا دل
ٹوٹ بھی تو سکتا ہے
تم بھی افتخار عارف
بارہویں کھلاڑی ہو
انتظار کرتے ہو
ایک ایسی لمحے کا
ایک ایسی ساعت کا
جس میں حادثہ ہو جائے
جس میں سانحہ ہو جائے
تم بھی افتخار عارف
تم بھی ڈوب جاؤ گے
تم بھی ٹوٹ جاؤ گے

Sunday, January 09, 2011

کبھی اس نے مجھے ٹھکرا دیا

کبھی اس نے مجھے ٹھکرا دیا
کبھی میں نے پل میں بھلا دیا

کبھی روشنی بن کے اندھیروں میں
سیدھی راہ سے مجھ کو بھٹکا دیا

ابھی دل کے پرانے داغ نہ دھل سکے
پھر چپکے سے اک نیا گھاؤ لگا دیا

میں موسیٰ نہیں، نہ ہی عیسی ہوں
ید بیضا کبھی، کبھی سولی پہ جھلا دیا

وہ سب وعدے فراموش کئے
وفاؤں کا کیا صلہ دیا

میں انجان یا معصوم ہوں ضیا
اک قطرے کی تمّنا میں
سمندر گلے لگا لیا