Sunday, January 09, 2011

کبھی اس نے مجھے ٹھکرا دیا

کبھی اس نے مجھے ٹھکرا دیا
کبھی میں نے پل میں بھلا دیا

کبھی روشنی بن کے اندھیروں میں
سیدھی راہ سے مجھ کو بھٹکا دیا

ابھی دل کے پرانے داغ نہ دھل سکے
پھر چپکے سے اک نیا گھاؤ لگا دیا

میں موسیٰ نہیں، نہ ہی عیسی ہوں
ید بیضا کبھی، کبھی سولی پہ جھلا دیا

وہ سب وعدے فراموش کئے
وفاؤں کا کیا صلہ دیا

میں انجان یا معصوم ہوں ضیا
اک قطرے کی تمّنا میں
سمندر گلے لگا لیا