Saturday, July 25, 2009

دولت

جسے خدا ذلیل کرنا چاہتا ہے وہ دولت کی تلاش میں لگ جاتا ہے ( حضرت حسن بصری ) ۔

Friday, July 24, 2009

! ترس کھا

ترس کھا ایسی ملت پر جو توہمات سے پر اور عقیدے سے خالی ہو

ترس کھا ایسی ملت پر جو وہ زیبِ تن کرتی ہو جو اس نے نہیں بنا، وہ کھاتی ہو جو اس نے نہیں بویا، وہ شراب پیتی ہو جو کسی اور نے کشید کی

ترس کھا ایسی ملت پر جو غنڈے کو ہیرو سمجھےاور فاتح کو بھر بھر جھولی درازی عمر کی دعا دے

ترس کھا ایسی ملت پر جو نیند میں بہادر اور جاگتے میں بزدل ہو

ترس کھا ایسی ملت پر جس کی صدا سوائے جلوسِ جنازہ کبھی بلند نہ ہو، سوائے زیرِ شمشیر کبھی گردن نہ اٹھے

ترس کھا ایسی ملت ہر جس کا مدبر لومڑ اور فلسفی مداری ہو اور ہنر ان کا صرف لیپا پوتی اور نقالی ہو

ترس کھا ایسی ملت پر جو نقارہ بجا کر نئے حاکم کا استقبال کرے اور آوازے کس کے رخصت کرے اور پھر نقارہ بجائے اگلے حاکم کے لیے

ترس کھا ایسی ملت پر جس کے دانشمند گزرتے وقت کے ساتھ بہرے ہوتے چلے جائیں، جس کے قوی اب تک گہوارے میں ہوں

ترس کھا ایسی ملت پر جو ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور ہر ٹکڑا خود کو ملت جانے۔۔۔۔۔۔۔

Thursday, July 16, 2009

Saray Jahan Main Dhoom Humari Zaban Ki Hai! :)

اسی اثنا میں شاہدِ زریں لباب شب نے زلفِ مشکیں فام کھولی، بزمِ عالم میں آکر جلوہ گر ہوئی، اور زینت طرازِ دہر نے کہکشاں سے مانگ کر عروس چرخ کی سنواری۔
شام ہوتے ہی تمام بارہ دری میں روشنی ہوئی اور باغ میں قنادیلِ بلوریں لٹکائی گئیں، سروِ چراغاں اپنا فروغِ بہار دکھانے لگے۔ نہروں میں کنول روشن کر کے ڈال دیے گئے، بجرے پڑ گئے، جل ترنگ بجنے لگا۔۔۔ چادرِ آب منقش و رنگیں تھی، شاہدِ آب ہر ہفت زیور سے مزئین تھی۔ جہاں کہیں پانی گھومتا تھا، وہیں کنول بھی گرد گھومتے تھے۔ اس وقت کی بہار قابلِ دید تھی۔ گویا شعلہ رو لباس رنگا رنگ زیبِ جسم کیے گردش کھاتے تھے۔ کنارے کنارے کنیزانِ دُر در گوش، مرصع پوش، جل ترنگ کے ساتھ اشعارِ بہار انگیز گاتی تھیں۔

Saturday, July 04, 2009

متاعِ غرور

کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا
فریبِ سود و زیاں لا الہ الا