Friday, September 09, 2005

Bilal (Razi-Ta-Aala-Anho) By Allama Iqbal (R.A.)

بلالؓ

چمک اٹھا جو ستارہ ترے مقدر کا
حبش سے تجھ کوُ اٹھا کر حجاز میں لایا

ہوئ اسی سے ترے غم کدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی

وہ آستاں نہ ُچھٹا تجھ سے ایک دَم کے لیے
کسی کے شوق میںُ تو نے مزے سِتم کے لیے

جَفا جو عشق میں ہوتی ہے وہ جَفا ہی نہیں
سِتم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزہ ہی نہیں

نَظر تھی صورتِ سلماںؓ ادا شناس تری
شرابِ دید سے بڑھتی تھی پیاس تری

تجھے نظارے کا مثلِ کلیم سودا تھا
اویسؓ طاقتِ دیدار کو ترستا تھا

مدینہ تیری نِگاہوں کا نُور تھا گویا
ترے لیے تو یہ صحرا ہی طُور تھا گویا

تری نظر کو رہی دید میں بھی حسرتِ دید
خُنک دلے کہ تپید و دمے نیا سائید

گِری وہ برق تری جانِ ناشکیبا پر
کہ خندہ زن تری ظلمت تھی دستِ موسٰی پر

تپش ز شعلہ گرفتند و بر دلِ تو زدند
چہ برقِ جلوہ بخا شاک حاصل تو زدند

اداے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری

اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ بنی

خوشا وہ وقت کہ يثرب مقام تھا اس کا
خوشا وہ دَور کہ دیدار عام تھا اس کا